سمجھ نہیں آرہی ، روﺅں یا ہنسوں؟

سمجھ نہیں آرہی ، روﺅں یا ہنسوں؟
Zubair Awan
کیپشن: Namal

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نمل نامہ (محمد زبیراعوان ) میرے گاﺅں کے دوبھائی نتھا اور خیرا آپس میں ایک درخت کی ملکیت پر الجھ پڑے، تھانے کی بجائے معاملہ گاﺅں کے چودھری کے پاس لے گئے ، چودھری کبھی ایک کے کان بھرتاتو چودھری کا نوکردوسرے کو بھڑکاتا۔اب معاملہ درخت سے بڑھ کر زمین تک جاپہنچااور دونوں نے بندوقیں اُٹھالیں لیکن ”ٹاکرے‘ سے پہلے ہی اُن کے باپ کاانتقال ہوگیا۔ باپ کی وفات کے صدمے سے دونوں کے دل پسیج گئے اور بالآخر ہمت جواب دے گئی ، بھائی آپس میں بغل گیر ہوئے اور ایک دوسرے سے معافیاں مانگتے ہوئے چودھری کی ”چالاکی “کا کچا چٹھا بھی کھول دیا۔یہ داستان اُس وقت تازہ ہوگئی جب اسلام آباد کی سبزی منڈی میں امرود لینے والے بارود کا نشانہ بن گئے اور ایک نئے نئے سیاستدان کا بیان سامنے آیا۔ پہلی مرتبہ کسی بھی دہشتگردی کی کارروائی پر طالبان کی طرف سے کھل کر مذمت سامنے آئی اورشہریوں پرحملوں کو حرام قراردیاگیاجس پر موصوف کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ طالبان کی مذمت پر روئیں یا ہنسیں ؟ جناب ۔ ۔ بنکرز میں بیٹھے لوگوں کو رونے کی ضرورت نہیں گوکہ آپ بھی تقریباً اِسی طرح کی کارروائی میں والدہ کو کھوچکے ہیں لیکن اس کے بعد آپ کی اپنی حکومت تھی ، آپ کی جماعت نے پانچ سال پورے کرنے کے بعد اقتدارمیں آنیوالی نئی حکومت کو قیام امن کیلئے مذاکرات کا مینڈیٹ دیالیکن اب بیشتر اوقات ٹوئیٹر پر آپریشن کا مطالبہ ہی سامنے آتاہے ، کبھی چھپ کر تو کبھی کھلے الفاظ میں ۔ ۔ ۔ اس کا کیامطلب لیا جائے کہ آپ نے صرف مفاہمتی پالیسی جاری رکھی ؟ اپوزیشن اور حکومت قیام امن کیلئے مذاکرات کے معاملے پر صرف الگ پیچ پرنہیں ، الگ کتاب پر ہیں ؟ اگر آپریشن ہی مقصود تھا تو سابق دور حکومت میں فوج کو سوات سے وزیرستان کی راہ کیوں نہ دکھائی ؟ 2013ءسے پہلے بھی ملک میں دہشتگردی کی کارروائیاں ناصرف ہورہی تھیں بلکہ زوروشور سے جاری تھیں۔ رونے کے لیے ہم کافی ہیں جو کبھی بھوک سے تو کبھی دہشتگردی سے ، کبھی مہنگائی سے تو کبھی کسی ادارے کی ستم ظریفی کا نشانہ بنتے ہیں ۔ کبھی کوئی جاگیردار مارتاہے تو کبھی کسی کی بیٹی اُٹھالی جاتی ہے لیکن کسی آفت یا ظلم پر تو ہوش آئے گی اور ’چودھراہٹ‘ سے پردہ چاک ہوگا۔

مزید :

بلاگ -