تحفظِ پاکستان آرڈی ننس: خدشات

تحفظِ پاکستان آرڈی ننس: خدشات
تحفظِ پاکستان آرڈی ننس: خدشات
کیپشن: babar khan nasir

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی مقننہ نے حال ہی میں تحفظ ِ پاکستان آرڈیننس 2013ءمیں نہایت ہی دوررس ترامیم منظور کی ہین، اس ترمیمی مسودے کو ابھی ایوانِ بالا میں پیش کیا جانا ہے۔ وہاں سے منظوری کے بعد صدر کے دستخطوں سے اس کا فوری طور پر نفاذ ہوجائے گا۔ قومی اسمبلی میں منظوری کے وقت اپوزیشن پارٹیوں کے بائیکاٹ کو دیکھ کر عام آدمی کا ماتھا ٹھنکنا لازمی امر تھا، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون سی ایسی شقیں ہیں جو اپوزیشن کو قابلِ قبول نہیں ہیں۔ اس سے پیشتر کہ ہم اس بارے میں آگاہی حاصل کریں، اس بات کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ آیا واقعی یہ بل شخصی آزادی، بنیادی حقوق اور پاکستان کے دستور کی کھلم کھلا پامالی تو نہیں؟ ہمارے مذہب میں یہ طے ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک سزا کا مستوجب نہیں ہوسکتا ،جب تک اس کو اپنی طرف سے کماحقہ، صفائی کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہمارے دین میں منع ہے اور ملکی آئین بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ان حقوق کے تحفظ کی ضمانت آئین کے آرٹیکلز8سے 10تک میں بڑی تفصیل سے دی گئی ہے۔ بین الاقوامی قوانین بھی ان حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے، بلکہ دنیا بھر میں ان حقوق کی پامالی کی سزائیں سخت ترین ہیں،ریاست کو کسی طور اس بات کی اجازت نہیں کہ وجہ بتائے بغیر کسی شہری کی آزادی سلب کی جائے اور یہ مسلمہ بات ہے کہ اگر کسی شخص سے ریاست کے خلاف بھی کوئی جرم ہوجائے تو اسے اپنی مدافعت کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا، اگر ایسا ہو تو اس کو جنگل کے قانون سے تشبیہ دی جائے گی۔ مجوزہ قانون میں ایسا اہتمام کردیا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان ایک ایسا ملک قرار پائے گا جہاں شخصی آزادی کی یہ پامالی مثالی ہوگی، جس کا تصور غیر ترقی یافتہ ممالک میں بھی محال ہوگا۔

 یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ ظالمانہ قوانین اور غیر جمہوری دساتیر میں بھی انسانی حقوق کا کچھ نہ کچھ خیال ضروررکھا جاتا ہے، اس سے پیشتر کہ ہم مجوزہ قانون کو آئینی کسوٹی پر رکھیں یہ دیکھنا ہے کہ ہر طرف سے اس کے خلاف اتنی آواز کیوں بلند ہورہی ہے ،سیاسی جماعتیں اس کو کیوں ہدفِ تنقید بنا رہی ہیں، مستقبل قریب میں اس کے خلاف ایک اجتماعی شور شرابے کی لہر اُٹھتی دکھائی دے رہی ہے، لیکن یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکمران اشرافیہ حسبِ معمول اس پرچُپ سادھنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ملک بھر سے اس قانون کے خلاف جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں، اُن کی حقیقت جاننے کے لئے ہمیں یہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ کیا واقعی یہ حقیقی شخصی آزادی اور انسانی حقوق کے خلاف ایک ریاستی قدغن ہے۔ ترامیم کو بہتر کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ذی نفس ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بننے کی کوشش کرے اور بقول حکومت اگر وہ ریاست کے ساتھ برسرِ پیکار ہو اور عساکر پاکستان کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہو، اسے اُس کی ملکی شہریت سے وجہ بتائے بغیر محروم کیا جاسکتا ہے۔
 اب یہ ثابت کرنا کہ وہ واقعی ایسا قصد کررہا ہے، حکومت کا کام ہے جو ٹھوس ثبوت کی بناءپر کھلے عام ہونا چاہئے، لیکن مسو¿دہ قانون اس کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایسے شخص کی نشاندہی صرف حکومت کا حق ہے اور اس کی بغاوت کی وجوہ بتانا ضروری نہیں ہے۔ یہ صرف حکومت کا صوابدیدی اختیار ہے کہ جسے چاہے الزام علیہ قرار دے دے۔ ایسے شخص کو ایک ایسی عدالت کا سامنا کرنا ہوگا ،جو خصوصی طور پر تشکیل دی جائے گی۔ عدالت کے اختیار سماعت، بیٹھنے کی جگہ اور کارروائی عوام سے خفیہ رکھی جائے گی، اس پر طُرہ یہ کہ شہادت کا چناﺅ بھی ریاست یا عدالت ہی کرے گی، اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پہلے سے اسی قسم کا کوئی اور مقدمہ اس شخص کے خلاف زیرِ سماعت ہوگا تو یہ عدالت اپنے خصوصی اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس مقدمے کو اپنے پاس منتقل کرسکے گی، سابقہ عدالت میں پہلے سے پیش آمدہ شہادتی ثبوت اُن کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا اختیار بھی خصوصی عدالت کا ہوگا اور جس قدر شہادت وہ ضروری سمجھے، اُسے قبول کرے اور باقی جس قدر چاہے رد کردے۔
الزام علیہ کو بغیر وجوہ بتائے نوے روز تک کسی بھی مقام پر محبوس کیا جاسکتا ہے اور اس مقام کا نام زیرِ حراست کیمپ رکھا جائے گا۔ اس کیمپ تک کسی بھی عدالتی رسائی کو محدودنہیں بلکہ بالکل ختم کردیا گیا ہے، محبوس کئے جانے کا تحریری حکم نامہ کوئی بھی مرکزی اور صوبائی حکومت جاری کر سکے گی اور اس کے اجراء کی وجوہات اور بنیاد بتانا ضروری نہیں ہو گا۔ علاوہ ازیں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ کسی بھی حکومت کی طرف سے جاری یہ حکم نامہ کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے خطرناک بات اس قانون میں یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق شک کی بنیاد پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی جانچا نہیں جا سکتا کہ کسی بھی شخص پر شک کرنے کی ٹھوس وجوہات کا پتہ لگانے کا اختیار بھی ہر عدالت سے چھین لیا گیا ہے ۔ اس کا اطلاق آئندہ سے کرنے کی بجائے موخربہ ماضی کیا گیا ہے ۔ سول آرمڈ فورسز اور افواج پاکستان کے پاس پہلے سے محبوس افراد پر بھی اس کا اطلاق کردیا گیا ہے ۔ اصل میں ان اداروں کے پاس غیر قانونی طور پر محبوس افراد کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے ۔ خصوصی عدالت کا دائرہ کار متعین کرتے ہوئے اسے یہ اختیار حاصل ہوگا وہ عام آدمی اور پبلک کو مقدمہ کی رسائی سماعت کے اختیار سے محروم کردیں اور دوران سماعت پیش آمدہ کسی اطلاع ، ثبوت، شہادت اور سچائی کو متشر ہونے سے روک لے بلکہ عدالت اگر چاہے تو مقدمہ کی ساری کارروائی کو خفیہ رکھنے کا حکم دے سکتی ہے۔
اب اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو قانون میں مجوزہ ترمیمات آئین کے آرٹیکل (2) 8 کی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔ آئین میں وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرسکے گی جو اس کی طرف سے عطا کردہ انسانی بنیادی حقوق کو ساقط کرے یا سرے سے اسے سلب کرسکے اور آئینی رو سے یہ ضروری ہے کہ اگر ایسا کوئی قانون نافذ العمل ہو گا تو اس شق کی روشنی میں خود بخود کالعدم مُتصور ہو گا۔ آئین کے آرٹیکل9 میں وضاحت سے درج ہے کہ ریاست کسی بھی شخص کو اس کی آزادی یا زندگی سے محروم نہیں کر سکتی، ماسوائے اس کے کہ قانون ایسا کرنے کی اجازت دے۔ مزید یہ کہ کسی بھی شخص کو کِسی الزام میں گرفتار کرتے وقت اسے گرفتاری کی وجوہ سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے اور الزام علیہ کو وجہ بتائے بغیر نہ تو نظر بند کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے اپنے پسند کے وکیل کی مشاورت سے محروم کیا جاسکتا ہے اور آرٹیکل 10کے تحت ہر گرفتار اور نظر بند شخص کو چوبیس گھنٹوں کے اندر مجاز عدالت میں پیش کیا جانا لازم ہے۔
اب اگر یہ دیکھا جائے کہ مسودہ قانون جس کو مقننہ نے پاس کردیا ہے آئینی کسوٹی پر پورا اترتا ہے، جس کا جواب نفی میں ہو گا۔ لگتا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے روبرو پہلے سے زیر سماعت عسکری اور جاسوسی اداروں کے خلاف مقدمات کو روکنے کے لئے یہ قانون لایا جا رہا ہے اور حکومت کی طرف سے آئندہ کے لئے شہری آزادیوں کو سلب کرنے کا انتظام ہو رہا ہے ۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ آئندہ آنے والے ایام میں اس قانون کے نفاذ کے خلاف بے مہابہ شوروغوغا بلند ہو گا، کیونکہ ایسے قانون کو وطن عزیز آج تک کسی بدترین آمر اور شخصی اقتدار کے مالک نے بھی نافذ کرنے کے بارے میں نہیں سوچا ۔ یہ مسودہ قانون آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے اور حکمرانوں کے بے مہار اختیارات کے حصول کی خواہش کا آئینہ وار ہے۔ نہ صرف آئین بلکہ اسلامی شعائر کی خلاف ورزی کرکے اس کا نفاذ کرنے سے بین الاقوامی برادری میں ہماری قوم کی سبکی ہو گی، کیونکہ اطلاعات کے ترقی یافتہ موجودہ دور میں کون سی ذی شعور قوم اس کی حمایت کرے گی۔ ٭

مزید :

کالم -