دلہن کو تمام حقوق حاصل ہی
ں شادی کی تقریب میں برائیڈل میک اپ کا خرچہ دلہن کے والدین کو اٹھانا چاہئے یا دولہا کے لواحقین کو ؟ اس کا حتمی فیصلہ تو اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا محمد خاں شیرانی ہی کریں گے ۔ البتہ میری تشویش کا سبب اس شرعی سوال کا مالی پہلو ہے ، اگرچہ میں اس نسل کا نمائندہ تو نہیں جو پرانی منڈیوں کے بھاﺅ بتانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی ۔ چابی کا لٹھا چار آنے گز ، دو گھوڑے کی بوسکی ایک روپیہ دو آنے ، فلیکس کا جوتا چار روپے میں ۔ پھر قیمتیں بتاتے ہوئے کسی نہ کسی نوجوان پہ یوں گھوری بھی ڈالی جاتی ہے جیسے تمام نرخوں میں مسلسل اضافہ اسی کی مرضی سے ہوا ہو ۔ پچھلے ہفتے میرے اولین بھتیجے کی شادی کا دن گزرا تو خوشی خوشی ، پر وہ جو کہتے ہیں ’وچلی گل‘ تو اس ایک بات کو شئیر کرنے کی میری خواہش کسی اور بھانجے ، بھتیجے کی شادی تک دل ہی دل میں رہ گئی ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شائد ہماری یا دلہن والوں کی طرف سے کوئی ایسی کفائت شعاری ہو گئی جس سے یہ تاثر ملا کہ دونوں پارٹیاں ذرا ’ایویں‘ قسم کی ہیں ۔ ایسی بات نہیں بلکہ باراتی موٹرکاروں کے ماڈل معمولی کھینچ تان کی بدولت اس مجاہدانہ معیار پہ پہنچا دئے گئے تھے کہ ’خوچہ مرے گا نہیں ، ڈرے گا تو سہی‘ ۔ اسی طرح ایک شام پہلے رسم حنا کے لئے شہر کے باہر فارم ہاﺅس کا چناﺅ ایسا پر شکوہ اور پنجاب پولیس کی دستبرد سے اس قدر دور تھا کہ بڑے بڑے جادو گر بالما اور بالمائیں حیران رہ گئیں ۔ چونکہ آجکل ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا تو کجا ، اس پہ غور کرنا بھی ضروری نہیں ، اس لئے ولیمہ کی دعوت تک اخراجات کی بابت میں نے اپنے سادہ طبع بھائی سے کچھ بھی نہ پوچھا جس نے اچھے عہدے سے ریٹائر ہو کر مزے سے کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کر رکھی ہے ۔ اگلا ہی دن تھا کہ میرے گھر میں ٹھہرے ہوئے مہمان ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے ۔ پھر یوں لگا جیسے وکی لیک کی طرح کسی کوشش کے بغیر کچھ اعداد و شمار بھی کان میں پڑنے لگے ہوں جنہیں سنتے ہی میں تو دنگ رہ گیا ۔ لیکن آپ میری پرواہ نہ کریں بلکہ کہہ لیں ’پینڈو پروڈکشن ، اردو میڈیم‘ ۔ خیر ، میں کیا کرتا ؟ تجزیہ کاری کی عادت سے مجبور ہوکر بیالیس سال پہلے پڑھی ہوئی ڈاکٹر ایس ایم اختر اور کے کے ڈیویٹ کی ’ماڈرن اکنامکس ‘ کی روشنی میں دو طرفہ خرچوں میں کچھ اور مدیں شامل کرنے لگا ۔ خواتین کے ملبوسات کی لاگت ، بین الاضلاعی آمد و رفت کے مصارف ، کاروبار ، دفاتر اور پرائیویٹ طبی پریکٹس کی پانچ پانچ چھٹیوں کی مالیت ۔ میں یہ کام خاموشی سے کر رہا تھا کہ گھریلو ٹاک شو کے دوران برائیڈل میک اپ کے یومیہ چارجز کا ’ٹکر‘ چل گیا ۔ اور یہی ہے اسٹوری کا ٹرننگ پوائنٹ ۔ ہمارے ملک میں جہاں شادی گاہ کی سجاوٹ کے لاکھوں روپے لئے جاتے ہیں ، ممکن ہے کہ نئی نسل کے لئے دلہن آرائی کے نئے نرخ اب معمول کی بات ہوں ۔ لیکن ’وچلی گل‘ یہ ہے کہ نوجوانوں کے ساتھ قدم ملانے کی خواہش کے باوجود اس تازہ ریٹ لسٹ نے مجھے ایک عجیب کامپلیکس میں مبتلا کر دیا ہے ۔ وجہ ہے اب سے تیس سال پہلے اپنی شادی کے وقت کم وسیلہ ہونے کا احساس ۔ جیسے اس وقت سوال یہ تھا کہ غریبی دعوے کے دو اڑھائی درجن باراتیوں کے لئے کاریں کہاں سے آئیں گی اور پچھلے ہفتے مسئلہ یہ تھا کہ کاریں پارک کرنے کے لئے جگہ کہاں سے آئے گی ۔ پھر یہ بھی کہ اگر ہماری بیگم جو تاحال میک اپ کی محتاج نہیں اگر اپنی شادی کے دن موجودہ چارجز والے کسی بیوٹی پارلر کا رخ کر لیتیں تو ہم دونوں مری روڈ پر مرزا غالب کے یہ ترمیم شدہ بول گاتے ہوئے گھر لوٹتے :
ہم نے یہ مانا کہ پنڈی میں رہیں ، کھائیں گے کیا یہ نہ سمجھیں کہ آج کے اس کالم نویس نے جب اپنے نکاح نامہ پر دستخط کئے تو اسے کسی نظریاتی چینل سے یوں تنخواہ ملا کرتی کہ ’اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکو ٰة ‘ ۔ نہیں ، میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ریکارڈ کی کھدائی کر کے اپنی اسسٹنٹ پروفیسری کی دستاویزی شہادت فراہم کر سکتا ہوں ۔ پھر شادی کی جو مختصر خبر ایک آدھ لوکل پیج پہ چھپی اس کے مطابق ، تقریب میں اعلی سول اور فوجی حکام بھی شریک ہوئے ۔ تنازعہ اس پہ نہیں ۔ پوائنٹ یہ ہے کہ سارے اگلے پچھلے الاﺅنس ملا کر میری کل تنخواہ تھی ۔ ۔ ۔ خیر کیا تنخواہ تھی ۔ یوں کہہ لیں کہ برائیڈل میک اپ کے آج کے ریٹ پر میرا سال بھر کا مشاہرہ دلہن کے چھپن فیصد چہرے پہ خرچ ہو جاتا ، باقی 44فیصد کا اللہ مالک ۔ اب پروفیسروں کی تنخواہیں بہتر ہیں ، لہٰذا ایک ماہ کی آمدنی ایک ٹائم کے میک اپ کے لئے کافی ہو گی ۔میرے نزدیک بناﺅ سنگھار ایک جمالیاتی مسئلہ ہی نہیں ، دلہن کی شخصی آزادی کا سوال بھی ہے جس پہ ذرا اونچی آواز میں بات کی تو عاصمہ جہانگیر کی امکانی ناراضی کے پیش نظر لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔ لیکن ہم اس شخصی آزادی کو تین تین لاکھ کے عروسی پہناوے ، کرائے کی مرسڈیز کاروں ، کسی تھر تھلی والے بد شکل وی آئی پی کی شرکت اور لڑکیوں کو اس لیپا پوتھی کی اجازت دینے تک ہی کیوں محدود کر دیں جیسے ، بقول سعادت حسن منٹو ، سڑک پہ لکھا ہوتا ہے کہ برائے مرمت بند ہے ۔ اپنے خاندان میں تازہ ترین شادی کے موقع پر میری شرکت تو دولہا کی طرف سے تھی ۔ لیکن انتخابی امیدواروں کی سی مسکراہٹ سے کام لیتے ہوئے بھی میں نے ڈٹ کر کہا کہ دلہن کے حقوق کے خانہ پر روایتی لکیر پھیر دینے کی بجائے جلی حروف میں ہر قیمت پہ لکھا جائے کہ بیٹی کو تمام حقوق حاصل ہیں ۔
پر اس بے بسی کا کیا کروں کہ جن جن بزرگوں سے خوشگوار حمایت کی آس تھی ، انہوں نے بجھے ہوئے لہجہ میں بس اتنا کہا ’جیسی آپ کی مرضی‘ ۔ ہاں ، ایک مولانا طارق جمیل ہیں کہ میری بات سن کر آپ کے چہرے کا تبسم اور گہرا ہو گیا ۔ نکاح خوانی سے فارغ ہوتے ہی میری اس التجا کو بھی پذیرائی ملی کہ آئندہ جہاں کہیں ان کے ہوتے ہوئے نکاح فارم بھرا گیا ، وہ کسی کو دو لہا دلہن کے حقوق کی قانونی شقوں پہ خط تنسیخ نہیں پھیرنے دیں گے ۔ ہماری خوش قسمتی کہ نکاح سے پہلے مولانا نے ناموں کے درست ہجے لکھنے کی تلقین بھی فرمائی ، جیسے زارا نہیں زہرہ ، رمیزہ نہیں رمیضہ ، نیز اشعر اور انعم ’ع‘ کے ساتھ ۔ پھر یہ نکتہ کہ اپنے منہ میں زبان کی حفاظت کرو کہ اسی سے گھر بنتے اور ٹوٹتے ہیں ۔ مولانا بندے کی اس تجویز سے محظوظ ہوئے کہ سر ، عورتوں کو بھی تلقین کر دیں ۔ آنے والے زمانے میں لوگ کریں گے وہی جو ان کی مرضی ہو گی ۔ قدروں کے نظام کو بدلنے ، ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو روکنے اور ایک سچا کھرا انسانی سماج تشکیل دینے کے ہمارے خواب شرمندہ ءتعبیر ہوتے ہیں یا نہیں ؟ میں دعوے سے کچھ نہیں کہہ سکتا ، لیکن گومگو کی اس کیفیت کے کچھ اپنے ہی مزے ہیں ۔ جیسے دبے دبے لفظوں میں بھائی سے کہا کہ اگر کچھ کم پیسے خرچ کر لیتے تو مسکراتے ہوئے بولے ’ بس سے باہر‘ ۔ میں نے بھاوج کی طرف دیکھا ، مسرت ملے جوش سے کہنے لگیں ’بچوں کی مرضی بھی دیکھنی پڑتی ہے‘ ۔ میرے خیال میں بچے سے اول نمبر پہ مراد ہیںان کے صاحبزادے یا سر ۔ ادھر دیکھا تو وہ مسلسل ہنستے ہی چلے گئے اور منہ جنوبی سمت سے مغرب اور پھر شمال کی طرف کر لیا ۔ شمال والی ہستی سے ابھی ذرا تکلف کا رشتہ ہے۔ اس لئے بات سوچ سمجھ کر کرنی پڑے گی ۔ تو اب نصیحت کیا کی جائے ۔ وہی جو تیس سال پہلے ایک نہائت عزیز دوست کے والد نے میری بیوی کو کی تھی۔ ’بیٹا ، کچھ ہو جائے خوش رہنا ہے ‘ ۔ پھر میری طرف دیکھا اور حکمیہ انداز میں دہرایا ’کچھ ہو جائے خوش رہنا ہے‘۔ میرا خیال ہے نبیلہ کے اسلام آباد والے گھر میں وہ قبول دعا کی گھڑی تھی ۔ پہلے تو عجیب سا لگا ، اس کے بعد حکم پہ عمل کرنے کی عادت سی ہو گئی ۔ میری روحانی طاقت مرحوم صدیق بھٹی صاحب کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ۔ اس لئے ان کا مشورہ آگے منتقل تو کر رہا ہوں مگر اس ذیلی نصیحت کے ساتھ کہ وقت کے ریلے میں بہتے ہوئے کبھی کبھار آنکھیں کھول کر گرد و پیش کو بھی غور سے دیکھ لیا کریں ۔ کیا پتا سوچے سمجھے بغیر قلمزد کی گئی ہماری زندگی کی شقیں میک اپ کے سرخی پاﺅڈر سے زیادہ چمکدار ہوں ۔