عوام کو خوشحالی کے خواب نہیں تعبیر چاہئے

عوام کو خوشحالی کے خواب نہیں تعبیر چاہئے
عوام کو خوشحالی کے خواب نہیں تعبیر چاہئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اب ہر ہفتے عوام پر پٹرول بم گرایا جاتا ہے، یہ ایک نیا ستم ایجاد کیا ہے ہماری جمہوری حکومت نے.... اس ستم کی وجہ سے لوگ ہر ہفتے سانس روک کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس معاشی قتل پر تمام سیاسی جماعتوں نے تین حرف بھیج دئیے ہیں اور اس حوالے سے اب کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں، زندہ درگور قسم کی زندگی گزار رہے ہیں، لوگ احتجاج بھی کر رہے ہیں اور مار دھاڑ بھی، یوم عشق پر جو غصہ عوام نے نکالا ہے، وہ صرف ہم پاکستانیوں ہی کی سمجھ میں آسکتا ہے باقی دنیا تو جانے ہمیں کیا کہے، لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ عوام کو جس طرح زندگی سے عاجز کر دیا گیا ہے، اس میں جب انہیں موقع ملتا ہے، وہ یہی کرتے ہیں، جو کچھ اس دن ہوا ،لیکن اس کے بعد بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، بلکہ اس احتجاج کے صرف دو دن بعد پٹرول پھر مہنگا کر کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑک دیا گیا۔ وہ زمانے گئے جب خلق خدا کے چھوٹے موٹے احتجاج بھی حکمرانوں کے نوٹس میں آجاتے تھے، اب تو انصاف حاصل کرنے یا حکمرانوں کو اس بات کا احساس دلانے کے لئے کہ دو وقت کی روٹی فراہم کرنا ان کی ذمہ داری ہے، مظلوموں کو لب سی کر سامنے آنا پڑتا ہے۔ وہ کبھی خود کو شعلوں کی نذر کر کے سوئے ضمیر جگانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی موقع مل جائے تو اپنا ہی سب کچھ برباد کر دیتے ہیں۔
کہتے تو سب ہیں کہ عوام احتجاج کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کی تنصیبات کو نقصان کیوں پہنچاتے ہیں؟ مگر یہ نہیں سوچتے کہ جب لوگ اپنا آپ جلا ڈالتے ہیں، خود کو سولی پر چڑھا کر یا مینار پاکستان سے گرا کر مار ڈالتے ہیں، تو ان کے لئے تنصیبات کیا چیز ہیں اور انہیں ان سے غرض ہی کیا ہے؟ اے ساکنان خطہ پاک! یوں لگتا ہے کہ حالات کا جبر چاہے جتنا بھی بڑھ جائے، وہ بے حسی کی اس برف کو پگھلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا جو ہمارے مظلوم عوام کا ازل سے مقدر بنا ہوا ہے۔ اسمبلیوں میں دیکھو تو دھینگا مشتی کا دور دورہ ہے۔ یہ دھینگا مشتی اور ہنگامہ کسی شیدے میدے یا بالے کی خود کشی یا خود سوزی کے مسئلے پر نہیں، بلکہ کسی سیاسی لٹیرے کی کرپشن پر پردہ ڈالنے یا اٹھانے کے لئے کیا جاتاہے۔ غریب عوام کے ٹیکسوں سے نچوڑا گیا کروڑوں روپیہ، جس سے سینکڑوں لوگوں کو بھوک اور غربت سے بچایا جا سکتا ہے، اسمبلیوں کے ان اجلاسوں پر خرچ ہوتا ہے، مگر یہ اجلاس غریبوں کے مسائل کم کرنے کے لئے نہیں ہوتے، بلکہ ان کے ذریعے صرف سیاست کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کو چور لٹیرا کہنے کا پیٹھو گرم ہوتا ہے یا پھر شیم شیم، گو گو اور چور چور کے نعرے لگا کر ٹھٹھہ مخول کی محفل گرم کی جاتی ہے۔
سیاسی منظر پر اچٹتی سی نگاہ ڈالنے سے یہ گمان گزرتا ہے جیسے پورا ملک پانی پت کا میدان بنا ہوا ہے۔ سب لڑائی جھگڑے عوام کے لئے نان ایشوز ہیں، ان کا اصل ایشو تو اب دو وقت کی روٹی ہے۔ جہاں عام سبزی سو روپے کلو مل رہی ہو، آٹا چالیس روپے کلو ہو چکا ہو، وہاں عوام کو سیاسی کھیل تماشے سے خوش کرنا ایسا ہی ہے، جیسے شوگر کے مریض سے کہا جائے کہ وہ ایک کلو چینی کھا کے دکھائے۔ عوام تو عرصے سے حکومتوں کو بنتا اور بکھرتا دیکھ رہے ہیں، وہ اب اس خوش فہمی سے نکل آئے ہیں کہ حکومت بدلتی ہے، تو حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ انہیں خبر ہے کہ اس نظام میں عوام کے لئے بچا ہی کچھ نہیں، سب کچھ ایک خاص طبقہ اشرافیہ کے لئے ہے۔ وہ بالآخر اس حقیقت کو جان گئے ہیں کہ سیاستدانوں کے راستے کی وہ ایسی گھاس ہیں، جسے وہ اپنے مقاصد کے لئے بُری طرح روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔
سیاسی محاذ پر یوں توہا ہا کار مچی ہوئی ہے ،لیکن اس شور شرابے میں کہیں بھی اس غربت اور بھوک کا ذکر سنائی نہیں دیتا جو جیتے جاگتے انسانوں کو موت کی راہ دکھا رہی ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں سے لے کر اسمبلی کے فلور تک، عالیشان بنگلوں اور جاگیرداروں کے ڈیروں سے عدالتوں کی دہلیز تک صرف پھوکے انصاف کا واویلا ہے یا سیاسی انتقام کا شور شرابہ، کسی کو اس بات کی کوئی فکر ہے، نہ خیال کہ اس شور شرابے میںوہ چیخیں دم توڑ رہی ہیں، جو لوگ آگ کے شعلوں میں جلتے ہوئے بدن کے روئیں روئیں سے نکلتی ہیں اور عرش تک پہنچ رہی ہیں۔ یہ بے حس سیاسی کلچر نہیں تو اور کیا ہے کہ اس میں ہر بات ہوتی ہے، لیکن غریبوں کے لئے کسی کی زبان سے آہ تک نہیں نکلتی۔
کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جس ملک میں غریب دہشت گردی، بھوک اور بیماری سے ”جوق در جوق“ ختم ہو رہے ہیں، اس ملک کے حکمران خوشحالی کے طویل المیعاد خواب دکھا رہے ہیں اور پھر اس پر داد و تحسین بھی طلب کرتے ہیں۔ جس دھرتی پر عوام کا ایک ایک لمحہ قیامت بن کر گزرتا ہو، اس کے لئے برسوں پر محیط خوشحالی اور ترقی کے منصوبے پیش کرنا ایک ایسا ڈرامہ ہے جس میں سارے کردار ظالم ہوں۔ ہر روز جیتے مرتے عوام کے لئے وعدئہ فردا کی تسلیاں کیوں کر ڈھارس بن سکتی ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ بے وقت کی راگنی الاپتے ہیں۔ امن و امان اور اقتدار کی بدحالی ہمارے سب سے بڑے مسائل ہیں، مگر ہمارے حکمران کبھی ایک تجربہ کرتے ہیں اور کبھی دوسرا۔
غربت کو مٹانے کے نعرے ہر دور میں لگتے رہے ہیں۔ یہ نعرے بھٹو نے بھی لگائے تھے اور پیپلز پارٹی کی اس حکومت نے بھی لگائے، جس نے ریکارڈ حد تک مہنگائی میں اضافہ کیا، اس قدر اضافہ کہ غریبوں کا جینا ناممکن بنا دیا۔ غربت نہ پہلے ختم ہونی تھی، نہ اب ختم ہوگی، یہ بات حکمرانوں کو بھی معلوم ہے اور ان غریب عوام کو بھی جو شروع دن سے خوشحالی کے نام پر دھوکہ کھاتے آئے ہیں۔ عوام کو خوشحالی کے خواب نہیں، تعبیریں چاہئیں، وہ تو اب صرف زندہ رہنے کا حق مانگ رہے ہیں، وہ باعزت روز گار کے مواقع چاہتے ہیں، وہ ان آوارہ گولیوں سے تحفظ چاہتے ہیںجو ان کا جسم چھلنی کر دیتی ہیں، وہ ان بموں سے پناہ چاہتے ہیں، جو ان کی بھوک کو گرم لوہے سے بجھانا چاہتے ہیں، اس ہاتھ کو بے نقاب ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں جو ان سے زندگی کی آخری سانس تک چھین لینا چاہتا ہے۔ کتنی درد ناک اور قابل نفرت صورت حال ہے کہ عوام کو وہ فصل کاٹناپڑ رہی ہے جو انہوں نے بوئی ہی نہیں تھی۔ جنہوں نے بوئی تھی وہ آج بھی محفوظ مقام پر بیٹھے ہیں یا بیرون ملک زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت شاید سمجھتی ہے کہ مہنگائی عوام کا مسئلہ نہیں، اسی لئے سب نے اس حوالے سے منہ پر ٹیپ لگا رکھی ہے۔ کوئی منصفانہ انتخابات کی بات کر رہا ہے اور کسی کو اپنی حکومت کے کارنامے گنوانے سے فرصت نہیں، حالانکہ اپوزیشن کو اگر وہ کہیں ہے تو ہر ہفتے عوام پر کئے جانے والے مہنگائی کے ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے، اس لئے لانگ مارچ کی کال دینی چاہئے، دھرنے کا پروگرام بنانا چاہئے، مگر کہاں، یہ تو عوام کا مسئلہ ہے اور عوام کے مسائل سے ان سیاستدانوں کا کیا تعلق؟ یہ تو اقتدار کی شطرنج پر ہر وقت نظریں جمائے رہتے ہیں اور ان کی سب سے بڑی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کوئی ایسی چال چلیں جو انہیں اقتدار سے قریب کر دے....موت سے قریب ہونے والے عوام کو یہ اقتدارئیے بھلا کیا ریلیف دے سکتے ہیں۔ 

مزید :

کالم -