چیف تیرے جانثار ‘ بے شمار بے شمار۔۔۔
لندن(بیرسٹر امجد ملک ) ہاں مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہیں جب سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے انگلینڈ‘ ویلز اور لندن کے لارڈ چانسلر کی رہائشگاہ پر سات سال قبل ایک ملاقات ہوئی اور ہمارا آپس میں تعارف ہوا تو چیف جسٹس نے مجھے کہا امجد مجھے وہ وقت یاد ہے جب میں نے ایک توہین عدالت کا نوٹس آئی جی پنجاب کو صرف اس لیے دیا کہ پولیس گجرات میں قتل ہونے والی ایک لڑکی کے قتل کیس کا مقدمہ درج نہیں کر رہی تھی ،یہ میری چیف جسٹس کے ساتھ پہلی ملاقات تھی اور اس ملاقات نے جو تاثر مجھ پر چھوڑا وہ آج تک قائم و دائم ہے آج جب چیف جسٹس سپریم کورٹ سے گھر جا رہے ہوں گے تو یہ سوچتے ہونگے کیا وکلاءتحریک کے مقاصد پورے ہوئے ?وکلاءیہ سوچ رہے ہوں گے کہ وکلا تحریک میں طے کیے گئے اہداف شاید پورے نہیں ہوئے لیکن میری دانست میں چیف جسٹس مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے 2007میں پاکستانی سٹیٹس کو زدہ بوسیدہ سسٹم کے کھڑے پانیوں میں پتھر پھینکا اور قانون کی حکمرانی‘ آئین کی بالا دستی اور جمہوریت کے لیے ایک ادنی کوشش کی. انکی خدمت کے اعتراف میں انہیں نیلسن منڈیلا کے برابر میڈل آف فریڈیم دیا گیا جسکا اعزاز تاریخ میں صرف تین لوگوں کو حاصل ہوا ہے چیف جسٹس نے سات سالوں میں کیا کچھ حاصل کر سکے یا کیا حاصل نہیں کر سکے یہ ہمیں تاریخ دانوں پر چھوڑنا چاہیے لیکن اگر کچھ مقاصد حاصل نہیں ہوئے توا سکی ذمہ داری صرف چیف جسٹس پر ڈالنا سراسر زیادتی ہو گی ۔2007ءمیں جب تحریک کا آغاز ہوا تھا اور جب سپریم کورٹ بار کے فورم سے وکلاءآتش فشاں اگل رہے تھے اور جرنیلوں کی کھالیں اتارنے کی بات کر رہے تھے تو چند دانشمند حضرات دہائی دے رہے تھے کہ وکلا اپنے مقاصد طے کر لیں اور اس کے لیے پیش بندی کرتے ہوئے کوشش کریں اپنے تمام مطالبات آئینی پیپروں کی شکل میں سیاسی جماعتوں کے لیے تیار رکھیں تاکہ سیاسی جماعتیں ان مطالبات کو اپنے منشور میں شامل کر سکیں اگر ایسا نہ ہوا تو عدلیہ کی آزادی ‘ آئینی انقلاب ‘ اور سماجی مساوات ایک خواب بن کر رہ جائیگا سڑکوں پر نکلے ہوئے وکلاءاور ان کے لیڈران ایسی دانشمند آوازوں کو سن نہ سکیں اور انہوں نے مشرف کو ہٹانا ‘سیاسی لیڈروں کی واپسی کے ساتھ انکار‘ ججوں کی بحالی کو ہی اپنا مطمع نظر بنا لیا سڑکوں پر نکلے ہوئے وکلاءاور ان کے رہنماوں2008کے الیکشن کے انعقاد کے بعد بڑے مقاصد کی طرف رجوع نہ کر سکے اور جب وکلاءتحریک کے سر خیل چوہدری اعتزاز احسن ‘ آصف علی زرداری کے سینٹر بنے تو ہم جیسے وکلاءتحریک کے ہزاروں کپتان یکا یک سینٹری انسپکٹروں میں تبدیل ہو گئے اور2008کے الیکشن کے بعد وکلاءتحریک گروہی اور سیاسی گروپ بندی کا شکار ہو گئی، لوگ اپنے اپنے گرہوں میں بٹ گئے اور سیاسی لیڈران اس بات پر خوش تھے کہ الیکشن ہو گئے مشرف چلا گیا اور وکیل واپس اپنے اپنے گروپس میں واپس جا چکے ہیں ،2009کے لانگ مارچ کے بعد اگر چیف جسٹس ججوں کی اصولی بحالی کے بعد سپریم کورٹ میں بیٹھنے کی بجائے وکلاءتحریک کی نمائندگی کرتے توشاید کسی انقلابی تبدیلی کی امید کی جا سکتی تھی لیکن ان کے سپریم کورٹ جانے کے بعد دریا کو کوزے میں بند کرنیوالا حساب ہو ا اور ایک مقبول جج آخر کار عدالتی پابندیوں کا شکار ہو گیا چیف جسٹس کے سات سالہ دور میں ان کے ہزاروں کیسوں کے اوپر کچھ کیسوں پر اختلاف کیا جا سکتا ہے ٹریفک کے مسائل ‘ چینی کی قیمتیں ‘ ارسلان افتخار کیس پر سو موٹو اور عتیقہ اوڑھو کی شراب کی بوتلوں والا کیس ایسے کیسوں میں شامل ہیں جن پر وکلاءنے بھی شدید تحفظات کا اظہا ر کیا لیکن جن کیسوں پر چیف جسٹس کی وجہ سے عام مظلوم عوام کو داد رسی کا حق ملا انکی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے سندھ کے ہائی منو بھیل کا کیس ہو یا مختاراں مائی کے ساتھ زیادتی ‘ زاہدہ پروین کا قتل ہو یا فیصل آباد میں سونیا ناز کی پولیس کے ہاتھوں در انگیزی ‘ اکبربگٹی کا قتل ہو یا لال مسجد کا آپریشن ‘ گمشدہ افراد کا معاملہ ہو یا سونے کے ذخائر یا سٹیل ملز کی ارزاں نرخوں پر فروخت کا کیس ہو ‘ کن کن کیسوں کا ذکر کروں جن میں سپریم کورٹ نے انتظامیہ کی غفلت اور پارلیمان کے سوئے ہوئے کی شکل میں ایک مثبت کردار کیا اور نہ صرف ملکی سلامتی اور ملکی بقاءکو خطرے میں نہیں ڈالنے نہیں دیا اور ملکی اثاثہ جات کو اونے پونے فروخت نہیں ہونے دیا بلکہ لاکھوں لوگوں کو امید کی راہ دیکھائی اگر حکومت توجہ حاصل کرتی اور سبق سیکھتی پارلیمان احتساب کا ادراہ بنتااور چیف جسٹس کے پاس پیش ہونے والے لاکھوں از خود نوٹس ‘ انسپکٹر اور ایس پی کی سطح پر حل کیے جا سکتے تھے لیکن اس بوسیدہ نظام میں چیف جسٹس کو انسپکٹر بن کرڈنڈا اٹھانا پڑا اور تب ہی لوگوں نے بات سنی حکومتی اکابرین کا چیف جسٹس کے ساتھ رویہ کیا تھا اسکا اندازہ سات سال سے جاری گمشدہ افراد کے کیس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے جس میں حکومت نے اپنی انا کا مسئلہ بناتے ہوئے عدالتی مقامات کو ٹوکری میں ڈال دیا اور آج تک جب چیف جسٹس ریٹائرڈ ہو رہے ہیں نہ ہی لاپتہ افراد سامنے لایا گیا اور نہ ہی اسکے اوپر قانون سازی کی گئی نہ خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ خفیہ سماعت میں ان کو پیش کیا جا سکے جیسا کہ برطانیہ میں ہے بلکہ ہٹ دھرمی کے ساتھ عدالتی احکامات کا وقت ضائع کیا گیا اور چیف جسٹس کے ریٹائرڈ ہونے کا انتظار کیا جہاں عدلیہ نے انتظامی معاملات میں مداخلت کی تو وکلاءنے اس کے اوپر اپنا اختلاف رائے ضرور د ی سمجھا یوسف رضا گیلانی کے توہین عدالت کا مقدمہ ہو‘ یا 18ویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تعیناتی کے اوپر نظر ثانی ‘ یا ان انتظامی معاملات کے اوپر عدالتی نوٹسز جن میں مفاد عام کی بجائے اداروں میں تناﺅ کا شائبہ ہو اب چیف جسٹس گھر جا رہے ہیں تو میں یہ بتانا چاہوں گا کہ از خود نوٹس بذات خود ایک جادو کی چھڑی ہے جو اگر آئین میں موجود نہ ہو تو ہمارا جاگیرداری نظام غریب آدمی کو سانس بھی نہ لینے دے اور ہاری وڈیروں کی جائیدادوں پر ایسے ہی قید رہیں جیسے منو بھیل قید تھا اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اسی طر ح جرگے ہوتے رہے اور ادلے بدلے کے طور پر مختارا ں مائی جیسے واقعات ہوتے رہے جیسا کہ ماضی میں ہو چکا ہے از خود نوٹس کے اوپر اپیل کا حق اور حکومت کو اصالتا یا وکالتا اپنا جواب داخل کرنے کا موقع ملنا چاہیے اور اس کو ہائیکورٹ کی سطح پر لے جانا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن اس کے لیے بھی سپریم کورٹ اور پارلیمان ہی واحد فوم ہے جو اس کے طریقہ کار پر نظر ثانی کر سکتے ہیں ہم نے چیف جسٹس کو اس سلسلہ میں اپیل 2013میں لکھ کر کاروائی کی استدعا کی ہے آج جب ہم چیف جسٹس کیخلاف انکی ریٹائرمنٹ کے اوپر ہرزاں سرائی سن رہے ہیں کچھ اختلاف کر رہے ہیں کچھ مبارکباد دے رہیں اور کچھ صرف بغض معاویہ میں ان کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں تو میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں کہ اچھا یا برا چیف جسٹس کا کام ہماری سوسائٹی کا آئینہ دار تھا ہم اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنا بخوبی جانتے ہیں چیف جسٹس صرف سپریم کورٹ چلا رہے تھے آئین میں ترمیم اور قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام تھا تجاویز اور مطالبات پیش کرنا وکلاءتنظیموں اور سول سوساٹی کا کام تھا اب چیف جسٹس سے یہ توقع کرنا وہ سب کام سپریم کورٹ کے لیول پر کر دیتے یہ ممکن نہ تھا ہمیں اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ چیف جسٹس نے 9مارچ 2007کو ایک طاقتور حکمران کے آگے حرف انکار کر کے آمریت کے تابوتوں میں محشر برپا کر دیا اور اسکا نتیجہ ایک لنگڑی لولی جمہوریت کی شکل میں حاضر خدمت ہے اس میں بہتری کی توقع اور گنجائش موجود ہے آج جب ایک ڈکٹیٹر غداری کا سامنا کر رہا ہے تو قوم کے پاس ایک موقع ہے کہ پرانے حکمرانوں سے بہتر کر دیکھائیں چیف جسٹس تو گھر جا رہے ہیں آنے والے چیف جسٹس ان سے بہتر کر دکھائیں مشرف ‘ گیلانی ‘ اور زرداری تو گھر جا چکے ہیں موجودہ اور آنے والے حکمران ان سے بہتر کر دیکھائیں اعتزازاحسن ‘ علی احمد کر د‘ جسٹس طارق محمود ‘ منیر اے ملک اب بار کے نمائندے نہیں رہے لیکن موجودہ اور آئندہ آنے والے بار کے نمائندگان ان سے بہتر کر دکھائیں تنقید برائے تنقید کی بجائے جو ملا ہے اس پر صبر شکر کر کے خدا کا شکر کرنا چاہیے کہ ہم ایسے دورمیں وکیل بنے یا پریکٹس کی جس دور میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری فوجی حکمرانوں کے سامنے ڈٹ گئے اور سات سالہ آمریت کو دوام بخشنے والے عدلیہ کے داغ کو دھو دیا اور 31جولائی 2009کو ایک تاریخی فیصلہ دیا کہ فوجی آمریت پاکستان میں نہ ہوگی میں بطور وکیل اپنا سر سے فخر سے بلند محسوس کرتا ہوں کہ بیرون ملک ہونے کے باوجود چیف جسٹس کی تحریک کا حصہ رہا جس نے پوری دنیا میں ایک لازوال مثال قائم کی ہم چیف جسٹس کو ڈھیروں دعاﺅں کے ساتھ رخصت کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ پاکستان قائد اعظم کے افکار اور کردار کے مطابق ایک فلاحی ریاست بنے جس میں تمام لوگ ان شخصی آزادیوں کے حامل ہوں جو 1973کے آئین میں درج ہیں چیف جسٹس کے حامیوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں ہے جاتے جاتے میں کہوں گا چیف تیرے جانثار بے شمار بے شمار۔