قومی سلامتی کمیٹی، کیا تحفظات اور غلط فہمیاں دور ہوگئیں؟
خبر ہے کہ بدھ کو پولیس نے اچھرہ کے علاقے میں ایک سرچ آپریشن کرکے تریسٹھ مشکوک افراد کو پوچھ گچھ کے لئے حراست میں لیا ہے۔ خبر اسی حدتک ہے یہ نہیں بتایا گیا کہ ان میں سے کسی سے کچھ برآمد بھی ہوا یا نہیں۔ یہ سرچ آپریشن حساس اداروں کی ان رپورٹوں کی روشنی میں کیا گیا جن کے مطابق شہرمیں جدید قسم کا بھاری اسلحہ آچکا اور ذخیرہ کرلیا گیا جس کی وجہ سے شہر آتش فشاں کے دہانے پر ہے۔ حالات میں حالیہ تبدیلی کے بعد یہ اطلاع زیادہ تشویش ناک ہے کہ کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے فائر بندی ختم کردی گئی اگرچہ مذاکرات پر آمادگی بھی ظاہر کی ہے البتہ اسے مشروط کردیا گیا ہے کہ حکومتی رویے کا جواب اسی کے مطابق دیاجائے گا۔
جہاں تک ایجنسیوں کی اطلاعات کا تعلق ہے تو یہ زیادہ مربوط انداز میں دی گئی ہیں، ایسے علاقوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جہاں یہ اسلحہ چھپائے جانے کے امکانات ہیں تاہم ان رپورٹوں کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جتنی ضرورت ہے اور اب تو یہ مزید بڑھ گئی ہے، ان رپورٹوں کے مطابق زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مختلف شہروں میں ایسے دین دار حضرات جو اسلام کے نام پر مقاصد سے متفق ہیں اب شدت پسندوں کی میزبانی کرنے لگے ہیں اور بہت سے حضرات کے پاس یہ لوگ مہمان کے طورپر وقت گزار کر چلے جاتے ہیں، ایسے حضرات کی نشان دہی خاصا مشکل کام ہے کہ صرف نشان ہی کافی نہیں ثبوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات یا معاملات طے کرنے کی جو صورت بنی اس میں اب تعطل آیا ہے تو مولانا سمیع الحق ، پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ نے بھی مایوسی کا اظہار شروع کردیا اگرچہ وہ اب بھی فریقین سے رابطے میں ہیں کہ مذاکرات دوبارہ شروع کرسکیں، آج جب قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو یہ حالات پہلے سے پیدا ہوچکے تھے اس لئے قدرتی طورپر ان پر غور لازمی ہوگیا اگرچہ اجلاس کے حوالے سے کوئی تفصیل تو نہیں بتائی گئی لیکن تازہ ترین حالات پر غور ہوا اور یہی طے ہوا ہے کہ مذاکرات یقیناً پہلی ترجیح ہیں کہ امن جانی نقصان کے بغیر قائم ہو لیکن یہ کوئی کمزوری بھی نہیں اگر شدت پسندی یادہشت گردی کا مظاہرہ ہوا تو جواب بھی ویسا ہی دیا جائے گا۔
وزیراعظم نے قومی سلامتی کا اجلاس بلاکر اچھا قدم اٹھایا ، ان سطور میں کئی روز پہلے یہ گزارش کی گئی تھی کہ اجلاس بلاکر غلط فہمیاں دور کرلی جائیں، معمولی تاخیر سے سہی جو غالباً دورہ چین کی وجہ سے تھی اجلاس ہوتو گیا بہرحال یہ بھی خوش آئند ہے خواجہ آصف کا زیادہ نام گونج رہا تھا تو وہ بھی شریک تھے اور پھر کوئی ان کی عسکری قیادت سے بول چال تو بند نہیں، یقیناًمصافحہ سے بات چیت تک مراحل حل ہوئے ہوں گے اور ہمارے یقین کے مطابق کئی غلط فہمیاں دور ہوئی ہوں گی جنرل راحیل شریف نے تحفظات کا اظہار کیا تو سنا بھی گیا ہوگا اور ان کو دور کرنے کا یقین بھی دلایا گیا ہوگا، سرکاری طورپر اجلاس کی جو تفصیل سامنے لائی گئی وہ حوصلہ افزا ہے اور یقیناً حالات بہتر اور فضا پہلے سے خوشگوار ہوئی ہوگی۔
اب تک جنرل (ر) مشرف کے حوالے سے دیئے جانے والے بیانات کی وجہ سے جو ماحول بنادیا گیا اس میں عسکری اور سیاسی حلقوں میں اختلاف ہی کا ذکر کیا گیا اور اسے متنازعہ بنایا گیا، حالانکہ صورت حال ایسی نہیں تھی ورنہ گزشتہ روز والے اجلاس کی اندرونی کہانی کچھ اور ہوتی۔ یہ مسئلہ بھی بات چیت ہی سے طے ہورہا ہے ، زیادہ جائزے لینے کی ضرورت نہیں۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی ملاقات کے حوالے سے گزشتہ روز شائع ہونے والی گزارشات ہی آج بھی سامنے آئی ہیں اور انہی خطوط پر بات چیت بھی ہوئی یقینا تعاون کا معاملہ تو اپنی جگہ اصل مسلہ تو تحفظ پاکستان قانون کی منظوری تھا فیصلہ ہوگیا کہ اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جائے گی، گزشتہ روز میاں رضا ربانی سے رابطہ ہو بھی گیا یوں امکان ہے کہ بالآخر اس بل پر وسیع تر مفاہمت کی صورت پیدا ہوجائے گی کہ وزیراعظم اسے سینٹ سے منظور کرانے کے خواہش مند ہیں، جہاں تک جمہوریت کے لئے اتفاق رائے کا تعلق ہے تو پہلے اپنی اپنی جگہ پر کہا جاتا تھا کہ جمہوریت کو نقصان پہنچانے نہیں دیا جائے گا اب مل کر مشترکہ طور پر کہا کہ جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیا جائے گا اس مسئلہ پر ہم سب ایک ہیں۔