اسلحہ ڈپو تباہ کیا گیا یا محض اتفاق ہے ؟یا پھر؟
تجزیہ: چودھری خادم حسین
کہا تو یہی گیا ہے کہ خیبر ایجنسی میں فرنیٹر کور کے اسلحہ ڈپو میں لگنے والی آگ اتفاقیہ ہے اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن اس بیان یا وضاحت پر کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں کہ اگر یہ اتفاق ہے تو پھر سوئے اتفاق ہے کہ کالعدم تحریک طالبان نے فائربندی ختم کرنے کا اعلان کیا، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں امن کی کوشش اور مذاکرات کے حوالے سے سابقہ فیصلے کی توثیق کی گئی تاہم ساتھ ہی خبر دار بھی کیا گیا کہ تشدد کی کارروائی ہوئی تو بھر پور جواب دیا جائے گا۔ اسی رات کے آخری پہر یہ دھماکہ آگیا یا آگ لگ گئی جس نے 1988ءمیں ہونے والے ادجڑی کیمپ کے دھماکوں کی یاد دلادی ان دھماکوں کی وجہ سے راولپنڈی اور اسلام آباد میں بہت نقصان ہوا تھا اور خیبر ایجنسی کے اسلحہ ڈپو کی آگ نے پورے لنڈن کو تل اور نواحی علاقوں کو رزا کر رکھ دیا آگ اسلحہ ڈپو میں لگی تو اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ اس سے بارود کے کیسے کیسے دھماکے ہوئے ہوں گے۔ بہر حال اس تحریر کے وقت تک اطلاع یہی تھی کہ حالات اور آگ پر قابو پالیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اتفاقی حادثہ ہے یا پھر باور کرایا گیا کہ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ عام پاکستانی اس کی وجہ سے پریشان ہوا ہے ، کوئی ذمہ داری قبول کرے یا نہ کرے بہر حال اس کی شیز تر تحقیقات ضروری ہے کہ وجہ کا علم ہو سکے کہ کہیں بغل میں تو کوئی چھپا ہوا نہیں۔
ادھر مذاکرات کے حوالے سے بھی عجیب سے سوال اٹھ رہے ہیں کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ الزامات کی ایک فہرست سامنے لائے ہیں وہ تو پاکستان کے مختلف حصوں میں گرفتاریوں اور اسلحہ کی برآمدگی کو بھی غلط قرار دیتے ہیں، ان کی فائر بندی سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کو پکڑا نہ جائے جس کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق کالعدم تحریک طالبان سے ہو جبکہ یہاں انٹیلی جنس رپورٹ یہ ہے کہ ملک کے بڑے شہروں (بشمول لاہور) میں جدید اسلحہ ذخیرہ کرلیا گیا ہے اور تشدد پسند پھیل کررہ رہے ہیں انہی حالات میں چوہدری نثار نے کہا کہ تحفظات اور شکوے شکائت تو میز پر بیٹھ کر ہی کئے جاسکتے ہیں۔ اب پھر یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ امن کی خواہش بہت نیک اور مشبت قدم سہی، لیکن یہ کن شرائط پر کیا کالعدم تحریک طالبان والے باقاعدہ پر امن پاکستانی شہری کی طرح رہیں گے؟ اور اپنا اسلحہ حکومت کے حوالے کرکے قبائلی انداز تک ہی محدود اسلحہ رکھیں گے؟ بہر حال مولانا سمیع الحق نے وزیر داخلہ سے ملاقات کی طالبان سے رابطہ کیا پروفیسر ابراہیم مذاکرات شروع کرانے کے لئے مساعی کررہے ہیں آئندہ دو چار روز میں بہت کچھ ہوگا حکومت کے انٹیلی جنس ادارے کام کررہے ہیں سیکیورٹی کے ذمہ دار بھی بے خبر نہیں ہیں جلد ہی مستقبل کے بارے میں پتہ چل جائے گ ۔ دہشت گردی اور لڑائی کوئی نہیں چاہتا سب کو امن کی خواہش ہے ۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے سینیٹر فیصل رضا عابدی سے استعفیٰ لیا ایک مثال قائم کی اگرچہ فیصل رضا کو شکوہ ہے، لیکن پیپلزپارٹی کا تشخص مجروح ہوا تھا ۔ فیصل رضا یکا یک وحدت المسلمین کے پلیٹ فارم سے متحرک آگئے تھے پیپلزپارٹی خود کو غیر فرقہ وارانہ برل پارٹی کہتی ہے وہ اپنے کسی اہم رکن سے مسلکی سیاست نہیں چاہتی فیصل رضا کے اس حوالے سے بعض بیانات پارٹی پالیسی سے بہر حال متصادم تھے۔ ان کے استعفیٰ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔
ادھر پیپلزپارٹی کے ”جیالوں“ نے بلاول بھٹو زرداری سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلی ہیں گزشتہ روز اے ٹی وی کے پروگرام میں پیپلزپارٹی پنجاب کے نائب صدر سابق رکن قومی اسمبلی ندیم افضل چن نے یقین ظاہر کیا کہ بلاول کے سرگرم ہونے سے حقیقی جیالوں کے وقار ملے گا اور پارٹی جو موجود ہے زندہ اور سرگرم ہوجائے گی انہوں نے کہا فی الحال کوئی قیادت تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ، ناراض یا گھر بیٹھ جانے والے اصل کارکنوں کو پارٹی میں اہمیت دنیا ہوگی بلاول یقیناً لاہور آئیں گے تو یہی کریں گے ۔ ندیم افضل اپنی جگہ درست کہتے ہوں گے لیکن عملی صورت میں اس وقت قیادت اس طبقے کے پاس ہے جس کا پیپلزپارٹی کا خلاسفی سے کوئی تعلق نہیں۔ بلاول لاہور آئے تو کھلے بندوں اور زیادہ کارکنوں سے نہیں مل سکیں گے ان سے ملاقات ان فہرستوں کے مطابق ہوگی جو پنجاب اور لاہور کی قیادت اپنے اپنے طور پر بنائے گی ۔ بلاول کو اپنے مشیروں پر بھروسہ کرنا ہوگا جن کے اپنے بھی تحفظات ہیں۔