بلاول کا دورہ لاہورپھر ملتوی، کیا سیکیورٹی خدشات ہی رکاوٹ ہیں؟

بلاول کا دورہ لاہورپھر ملتوی، کیا سیکیورٹی خدشات ہی رکاوٹ ہیں؟
بلاول کا دورہ لاہورپھر ملتوی، کیا سیکیورٹی خدشات ہی رکاوٹ ہیں؟
کیپشن: Qudratullah Ch

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
لاہور پھر جناب بلاول بھٹو زرداری کے استقبال سے محروم رہے گا کیونکہ اب کی بار بھی ان کا دورۂ لاہور ملتوی ہوگیا ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ وہ اپنے والد محترم آصف علی زرداری کی صدارت کے آخری دنوں میں ان کے ساتھ ہی لاہور آئے تھے۔ جناب زرداری نے اس وقت کہا تھا کہ وہ نواز شریف کے ہمسائے بن گئے ہیں، ان کا اشارہ جاتی عمرہ کی طرف تھا جو بحریہ ٹاؤن میں واقع ’’بلاول ہاؤس‘‘ سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر ہے ، تاہم اس کے بعد دونوں باپ بیٹے نے لاہور کا رخ نہیں کیا، التوا کی ذمہ داری سیکیورٹی وجوہ پر ڈال دی گئی ہے حالانکہ پنجاب کی حکومت نے انہیں فول پروف سیکیورٹی دینے کا یقین دلایا تھا، اطلاعات میں تو یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کو بلاول ہاؤس میں بلاکر کھانا کھلایا جائے گا۔ لیکن اب پھر دورہ ملتوی ہوگیا ہے، اللہ کرے سیکیورٹی کے معاملات جلد ہی بہتر ہو جائیں اور وہ جلد سے جلد لاہور آئیں۔ لاہور ان کے لئے چشم براہ ہے۔
جنہوں نے لاہور کا بلاول ہاؤس دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ ہرلحاظ سے محفوظ جگہ پر ہے۔ بحریہ ٹاؤن میں تو سیکیورٹی ویسے بھی بہت فول پروف ہے۔ عام مکینوں کی سیکیورٹی کا بھی بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ کسی ’’مشکوک‘‘ شخص کو ادھر نہیں جانے دیا جاتا، جو حضرات پلاٹوں کی خریداری وغیرہ کے لئے جاتے ہیں ان سے بھی شناختی کارڈ طلب کئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں وہاں جانے دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مکین ٹاؤن کی سیکیورٹی کو یہ شکایت کردے کہ فلاں شخص یا فلاں گاڑی اس کا پیچھا کررہی ہے تو سیکیورٹی والے فوراً ایسی گاڑی کی نگرانی شروع کردیتے ہیں۔ جب عام آدمی اس سیکیورٹی سے مطمئن ہیں تو بلاول ہاؤس کی سیکیورٹی کا تو خصوصی اہتمام ہے۔ اس کی دیواریں معمول سے کافی بلند ہیں اور اتنی بلند ہیں کہ کوئی دوسرا مکین اپنے گھر کے اردگرد اتنی اونچی دیوار نہیں بناسکتا، یہاں جو عمارتیں بنتی ہیں وہ منظور شدہ نقشے کے عین مطابق بنتی ہیں۔ زمین سے تعمیر شدہ عمارت کا فاصلہ ایک مقررہ حد سے زیادہ نہیں رکھا جاسکتا، اگر آپ عمارت بنارہے ہیں اور خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نقشے کی خلاف ورزی کررہے ہیں تو متعلقہ شعبہ آکر عمارت کا معائنہ کرے گا اور خلاف ورزی کی صورت میں عمارت کے متعلقہ حصے کو گرا بھی دے گا، ٹاؤن میں بلاول ہاؤس کے سائن بورڈ بھی لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر نہ بھی ہوں تو یہ ہاؤس دور سے ہی اپنی اونچی اونچی دیواروں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔
ان حالات میں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ بار بار ان کا دورہ ملتوی ہو، سیکیورٹی وجوہ کی بنا پر ان کا دورہ پہلے بھی متعدد بار ملتوی کردیا گیا اور ایک بار پھر ایسا ہی ہوا ہے۔ حالانکہ اطلاعات یہ تھیں کہ انہوں نے لاہور کے علامہ اقبال ایئرپورٹ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر بحریہ ٹاؤن میں آنا تھا، حالانکہ ان کے کارکنوں کی تو یہی خواہش ہوگی کہ وہ اپنی پارٹی کے جواں سال قائد کو جس نے اگلے برسوں میں پارٹی کو صحیح معنوں میں عوامی پارٹی بنانا اور ایک بار پھر اقتدار کے ایوانوں میں داخل کرنا ہے، قریب سے دیکھیں ، ان کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو روشن کریں، ان کے راستے میں پلکیں بچھائیں لیکن کارکنوں کی یہ امید پوری نہیں ہورہی ان کی لاہور آمد کو کم وبیش دس ماہ ہونے کو آئے ہیں اور وہ متعدد بار اعلانات کے باوجود نہیں آسکے، ناہید خان کا تو کہنا ہے کہ ٹوئٹر کے ذریعے پارٹی نہیں چلائی جاسکتی، لیکن پارٹی کی پنجاب کی قیادت سے یہ سوال ضرور کیا جاسکتا ہے کہ جب حکومت انہیں فول پروف سیکیورٹی دینے کے لئے تیار ہے تو پھر وہ کیا خدشات ہیں جوہر بار دورے کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں۔ اگر ہیلی کاپٹر کے ذریعے آنے میں بھی کچھ خدشات ہیں، تو پھر رابطہ عوام کی کیا صورت ہوگی ؟
پارٹی کی پچھلے انتخابات میں شکست کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی تھی کہ وہ انتخابی مہم کے دوران جلسے نہیں کرسکی تھی، ہوسکتا ہے یہ بات کسی حدتک درست ہو۔ لیکن اب تو کوئی انتخابی مہم نہیں چل رہی، معمول کی سیاسی سرگرمیاں بھی نہیں رہیں، ایسے میں اگر بلاول ہاؤس کے اندر بھی قیادت اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہے تو پھر عوامی رابطے کی کوئی متبادل صورت بھی تو ذہن میں ہوگی، بلاول جب پاکستان میں ہوتے ہیں تو کراچی میں رہتے ہیں جہاں امن وامان کے حالات اگر پنجاب سے برے نہیں تو بہتر بھی نہیں، اب اگر وہ ان حالات میں کراچی میں تسلی کے ساتھ رہ رہے ہیں تو لاہور میں کون سی خرابی ہے کہ یہاں وہ چند دن گزارنے کے لئے نہیں آسکتے بلاول ہاؤس تو ان کے لئے اداس اداس ہے لیکن پارٹی کی مقامی قیادت نے اپنے قائد کو یہ نہیں بتایا کہ لاہور اتنا بھی غیر محفوظ نہیں کہ اس سے دور دور رہا جائے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کی قیادت بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ لاہور نہ ہی آئیں تو اچھا ہے ممکن ہے ان کا شایان شان استقبال کرنے میں کوئی رکاوٹ ہو، لیکن جب انہوں نے لاہور ایئر پورٹ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر ہی آنا تھا تو استقبال کا اہتمام بحریہ ٹاؤن میں ہوسکتا تھا جہاں سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں، بہرحال وہ جہاں رہیں خوش رہیں اور اللہ انہیں اپنی حفظ وامان میں رکھے۔

مزید :

تجزیہ -