پرویز مشرف ای سی ایل کیس ، فیصلہ بالآخر سپریم کورٹ کو کرنا پڑیگا؟
تجزیہ :سعید چودھری
ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام خارج کروانے کے لئے دائر سابق صدر پرویز مشرف کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت سے تفصیلی جواب طلب کرلیاہے اس کیس کی مزید سماعت کے لئے 7مئی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ اس درخواست کی ابتدائی سماعت کے موقع پر ہی اٹارنی جنرل کارروائی کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار پر اعتراض کرنا چاہتے تھے ، اب یہ اعتراض یقینی طور پر تحریری شکل میں داخل کیا جائے گا ۔کیا پرویز مشرف نے اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لئے درست فورم کا انتخاب کیا ہے ؟کیا یہ معاملہ آخر کار سپریم کورٹ میں ہی فیصلے کے لئے زیر غور آئے گا؟دو اپریل کو وفاقی حکومت نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام خارج کروانے کے لئے دائر سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی عرضداشت سپریم کورٹ کے 8اپریل 2013کے ایک حکم کو بنیاد بنا کر مستردکی تھی ۔علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ نے بھی 29مارچ 2013کو 21روز کے لئے پرویز مشرف کی حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں اپنے خلاف مقدمات میں متعلقہ عدالتوں سے رجوع کرنے کی ہدائت کی تھی اس کے ساتھ ہی ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی ۔اب پرویز مشرف نہ صرف اپنے خلاف تمام مقدمات میں متعلقہ عدالتوں میں پیش ہو چکے ہیں بلکہ ان مقدمات میں ان کی ضمانت بھی ہوچکی ہے ۔اب پرویز مشرف کے وکلاء کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا 8اپریل کا مذکورہ حکم ایک عبوری فیصلہ تھا اور حتمی فیصلہ میں اس عبوری حکم کا ذکر نہیں ہے جس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ عبوری حکم منسوخ ہوچکا ہے اور 8اپریل کے اس عدالتی حکم کی بنیاد پر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ کے 29مارچ 2013کے حکم پر بھی عمل درآمد ہوچکا ہے ۔اس معاملے کی بظاہر قانونی حیثیت یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ ای سی ایل سے نام نکالنے سے انکار کی بابت حکومت سے استفسار کرسکتی ہے اور اس جواز کا بھی جائزہ لے سکتی ہے جس کی بنیاد پر پرویز مشرف کی عرضداشت 2اپریل کو مستردکی گئی تھی لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ایسے عبوری احکامات جن پر دوران سماعت ہی عمل درآمد ہو جاتا ہے انہیں حتمی فیصلے میں نہ دہرانے کی روایات موجود ہیں جیسا کہ اگر کسی عدالت کے دائرہ اختیار کو کسی متفرق درخواست کے ذریعے چیلنج کیا جائے اور وہ درخواست مسترد ہوجائے تو عام طور پر دائرہ اختیار کا سوال حتمی فیصلے میں شامل نہیں کیا جاتا ۔ان حالات میں حکومتی وکلاء یہی موقف اختیار کریں گے کہ سپریم کورٹ کے 8اپریل کے عبوری حکم پر چونکہ عمل درآمد ہوچکا تھا اس لئے اس عبوری حکم کو حتمی فیصلے میں شامل کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور یہ کہ یہ عبوری حکم پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کے ساتھ ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا تھا اس لئے سپریم کورٹ کو حتمی فیصلے میں اس عبوری حکم کا ذکر کرنا ضروری نہیں تھا۔ وزارت داخلہ کی طرف سے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج نہ کرنے کے لئے وزارت عظمیٰ کے حکم نامے کو بنیاد بنانے کے بعد بادی النظر میں یہ ممکن نہیں ہے کہ پرویز مشرف کو کسی ہائی کورٹ سے کوئی ریلیف ملے گا ۔سرکاری وکلاء کی پوری کوشش ہوگی کہ پرویز مشرف کی طرف سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست کو ناقابل پذیرائی ثابت کر کے مسترد کروایا جائے بظاہرقانون کے مطابق ہائی کورٹس کو سپریم کورٹ کے احکامات میں کسی تبدیلی یا ان کی تشریح کا اختیار حاصل نہیں ہے ۔محسوس ہوتا ہے وزارت داخلہ کی طرف سے پرویز مشرف کی عرضداشت مسترد کئے جانے کے اقدام کے جائز یا بلاجواز ہونے کے معاملہ کا فیصلہ بالآخر سپریم کورٹ کو ہی کرنا پڑے گا۔